GuidePedia

0

ذہنی دباوٴ سے نجات پانے کے طریقے
ایک بڑے ادارے گیلپ کے جائزے کے مطابق گزشتہ سال 1011 افراد سے لئے گئے انٹرویو سے معلوم ہوا کہ ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں مصروف رہ سکیں۔
شکیل صدیقی:
ایک بڑے ادارے گیلپ کے جائزے کے مطابق گزشتہ سال 1011 افراد سے لئے گئے انٹرویو سے معلوم ہوا کہ ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں مصروف رہ سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسے افراد جن کے بچے اٹھارہ برس سے کم عمر کے ہیں اور وہ کُل وقتی ملازم ہیں ان کی مصروفیت کا ایک بڑا حصہ ملازمت میں گزرتا ہے ۔ جائزے کے مطابق ایشیائی باشندوں کی ملازمت کے اوقات زیادہ طویل ہوتے ہیں لہٰذا وہ کوئی مشغلہ اختیار نہیں کر پاتے۔ سنگا پور میں لوگ ہفتے میں 46 گھنٹے مصروف رہتے ہیں جب کہ ہانگ کانگ میں یہ اوقات 7 ء 46 اورفرانس میں 6 ء 36 گھنٹے ہیں۔ ان کی یہ مصروفیت بعض اوقات جبراََ بھی ہوتی ہے اس لئے کہ بہت سی کمپنیوں کا ضابطہ ایسا ہے کہ جس کی رو سے ملازم چاہے بیمار ہو اسے ڈیوٹی پر حاضر ہونا ہے۔
ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو ازخود ڈیوٹی پر جانے کے شوقین ہوتے ہیں ۔ انھیں اپنے کام سے بہت محبت ہوتی ہے اس لئے کہ ان کے سارے دوست یار وہیں ہوتے ہیں جن میں وہ اتنے گھلے ملے ہوتے ہیں کہ ان کی جدائی انھیں گوارا نہیں ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرے مشغلوں او ر خاص طور پر اپنے اہلِ خانہ کو وقت نہیں دے پاتے۔ انھیں اپنی زندگی کی رفتار دھیمی رکھنا اور دوسروں کے لئے وقت نکالنا چاہیے۔
خود کو مصروف رکھیے :
ذہنی دباوٴ میں وہ بوڑھے زیادہ مبتلا ہوتے ہیں جن کے پاس کوئی مصروفیت ہی نہیں ہوتی اس کا ایک ہی حل ہے کہ وہ جانوروں یا پرندوں سے دل لگائیں۔ پچاس سالہ مارگریٹ روبن چڑیوں سے محبت کرتی ہے۔ انھیں دانا دنکا دینے اور ان کے لئے پینے کے پانی کا انتظام کرنے میں اس کا سارا وقت گزر جاتا ہے اس کے چاروں طرف رنگارنگ پرندے چہچہاتے رہتے ہیں۔ اس کے تین بیٹے ہیں جن کی مصروفیات میں حصہ لے کر بھی وہ پرندوں کیلئے وقت نکال لیتی ہے ۔
ساٹھ سالہ ڈیوڈ اینڈرسن نے پیرا کی سیکھ لی ہے۔ وہ پیرا کی کرنے کے علاوہ مچھلیاں بھی پکڑتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زندگی مسائل سے پُر ہے لیکن ماضی میں رہنے اور مستقبل کی فکر کرنے کے بجائے ہمیں حال میں زندہ رہنا چاہیے۔ پیرا کی تیز قدمی یا جاگنگ جیسے مشغلے آپ کو زمانہ حال میں رکھتے ہیں اور آپ پُر سکون رہتے ہیں۔
زمانہ حال میں رہنا ضروری کیوں؟
ماہر نفسیات ڈینیل اسٹرن کا کہنا ہے کہ وہ عمل جو لمحاتی ہوتے ہیں وہ بھی ہماری زندگی پر مثبت اثر ڈالتے ہیں ۔ ان کے کلینک میں جب بھی کوئی مریض داخل ہوتا ہے تو وہ اس سے مصافحہ ضرور کرتے ہیں تاکہ لمحاتی لمس سے وہ مریض زمانہ حال میں اپنی موجودگی کی اہمیت کو محسوس کرے۔ پھر اس سے اچھی قسم کی گفتگو کرنے اور اس کا حوصلہ بڑھانے کے بعد جب مریض رخصت ہونے لگتا ہے تو وہ صرف ایک ہاتھ سے نہیں بلکہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔ وہ زبان سے کچھ نہیں کہتے ، تاکہ مریض ان لمحات کو ”محسوس“ کر سکے۔
ایک بڑی کتاب کی مصنفہ گیل بلینکی کا کہنا ہے کہ اپنی الجھنوں سے نجات پانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ گزرے ہوئے لمحات کو تفصیل کے ساتھ احاطہ تحریر میں لاتے رہیں۔ اس عمل سے ماضی کا رشتہ حال سے بندھا رہے گا۔
گیل نے ایک فرم کے عہدے دار سے کہا کہ وہ اپنی زندگی میں پیش آنے والے مصائب پر ایک مضمون لکھے ۔ اس وقت اس وقت جب ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو گیل نے انھیں گھر جانے کی تاکید کی۔ دوسرے دن وہ گیل سے ملنے آئے تو انھوں کئی صفحات پر مشتمل مضمون لکھ ڈالا تھا۔ اس وقت انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے کیسی زندگی گزاری ہے اور ان میں کسی بات کی کمی ہے ۔ اس تحریر کا ان پر خوش گوار اثر ہوا اور انھوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کی تعلیمی مصروفیات میں دل چسپی لینا شروع کر دی جس سے ان کے بیٹے پر بھی مثبت اثر پڑا اور وہ پڑھائی میں نمایاں کام یابیاں حاصل کرنے لگا۔
لطف اٹھائیے:
نغمہ نگار وارن زیون کا کہنا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہوں اس سے پوری طرح سے لطف اندوز ہوں چاہے آپ کوئی سینڈوچ ہی کیوں نہ کھا رہے ہوں۔ اس کے علاوہ زندگی سے لطف اندوز ہونے اور ذہنی دباوٴ سے نجات حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں جن میں کھانا پکانا اور کتابوں کا مطالعہ بھی شامل ہے ۔ آپ جو کچھ بھی کریں انتہائی دل چسپی اور خوش دلی کے ساتھ کریں۔


Post a Comment

 
Top